بسم اللہ الرحمن الرحیم ترکستان کا بادشاہ اور اسلامی دنیا کا حکمران تھا۔ عیسائیوں کی بڑی حکومتیں بھی اس کے نام سے کامپتی تھیں۔ یوں تو ہر مسلمان حکمران کو امارتیں بنوانے کا شوق رہا ہے۔ لیکن سلطان مراد مسجدوں کی تعمیر میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے دل میں ایک مسجد کا نقشہ بنایا۔ یہ مسجد اس کے خیال کا حسین مورکہ تھی۔ اس دور میں ایک معمار کو بلا کر نقشہ دکھایا گیا اور مسجد کی تعمیر پر لگا دیا۔ وقت گزرتا گیا، مسجد آہستہ آہستہ بندی رہی اور لاکھوں اشرفیاں خرج ہو گئیں۔ آخر مسجد مکمل ہو گئی جو فلواکہ ایک اچھی عبادت گاہ تھی۔ موئمار بڑے دعوے کے ساتھ بادشاہ کی حضور حاضر ہوا اور عرض کی حضور مسجد تیار ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ بادشاہ نئی مسجد دیکھنے کے لئے گیا۔ مسجد کو ہر طرف سے دیکھا، اوپر سے نیچے سے، شمال و جنوب سے۔ مگر اتفاق دیکھئے کہ اچھی امارت اپنے تقاظے کے لئے بادشاہ کی پسند کی منتظر ہے۔ مگر بادشاہ ہے کہ اسے یہ امارت کتن پسند نہیں آئی۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ آخر جب سنبھال نہ سکا تو حکم دیا مویمار کا ہاتھ کار دیا جائے۔ یہ حکم ملنا تھا کہ جلاد نے فورا ہاتھ کار دیا۔ مویمار کو یہ سزا بلا وجہ ملی تھی۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ وہ سیدہ قاضی کی عدالت میں جا پہنچا اور دعویٰ دائر کر دیا۔ قاضی نے بادشاہ کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جب بادشاہ حاضر ہوا تو عدالت میں مویمار بھی کھڑا تھا۔
بادشاہ یہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ قاضی نے بادشاہ کے بیانات لیے اور حکم دیا بادشاہ کا بھی ہاتھ کار دیا جائے۔ اس ہاتھ سے بھی خون گرنا چاہیے تاکہ وہ آئندہ غلط فیصلے سے پرہیس کرے۔ محمد رسول اللہﷺ ے کاظی کا فیصلہ سنا تو اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ معمار نے دیکھا تو اس کی چیخیں نکل گئیں اور بولا میں نے انصاف پا لیا میں نے انصاف پا لیا میں بادشاہ کو اپنا خون ماف کرتا ہوں اور کسی دباؤ کے بغیر بادشاہ کو بخشتا ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ بادشاہ کی جان میں جان آئی اور اس نے معمار کو بہت ساتو سامان دے کا رخصت کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ قاضی اسلام احکام کے اعلام میں اس کا درد لے رہے ہیں کہ بادشاہ کو بھی مجرم قرار دیتے ہیں۔ دوسرا واقعہ دو آدمی قاضی کی عدالت میں کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنے ساتھی کو مال بطور امانت دیا تھا۔ جب میں نے مطالبہ کیا تو اس نے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ کازی نے مدعی علیہ سے امانت کے مطالق پوچھا تو اس نے کہا میں نے مال لیا ہی نہیں۔
یہ جھوٹ بول کر مجھے بدنام کر رہا ہے۔ اس کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں۔ ورنہ میں قسم دینے کے لیے تیار ہوں۔ کازی نے مدعی سے پوچھا۔ مدعی نے جواب دیا۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک درخت ہے۔ ہم نے بہلے اس کے سائے میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور پھر میں نے اپنا مال اس کے سپرد کر دیا۔ کازی نے کہا تم ابھی وہاں جاؤ شاید تمہارا مال وہیں کہیں پڑا ہو۔ اس جگہ کا جائزہ لے کر سیدھا میرے پاس آنا وہ شخص چلا گیا۔ کازی نے مدعی علی سے کہا اپنے ساتھی کی واپسی تک میرے پاس بیٹھے رہو۔ چپ چاپ وہاں پر بیٹھا رہا۔ قاضی دیگر مقدمات نمٹانے میں مصروف ہو گیا۔ قاضی کی سمات کے دوران پھٹی ہوئی نکاہوں سے کبھی کبھی مودی علی کی طرف دیکھ لیتا تا کہ اسکے چہرے کے تاثرات جانے والے بھی دیکھیں۔ وہ شخص بالکل آرام اور سکون سے بیٹھا تھا۔
قاضی سمات کے دوران یک دم اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ اس جگہ پر پہنچ چکا ہوگا۔ جہاں اس کا دعویٰ ہے، جہاں اس نے مال تیرے سپرد کیا تھا۔ اس نے بے خیالی میں جواب دیا نہیں۔ وہ جگہ یہاں سے کافی دور ہے۔ ابھی وہ راستے میں جا رہا ہوگا۔ قاضی نے غزبناک ہو کر کہا کمبخت کمینے تو مال لینے کا انکار کرتا ہے اور اس جگہ کا اعتراف بھی کرتا ہے جہاں تو نے مال لیا تھا، تو خائن، جھوٹا اور بددیانت ہے۔ وہ اچانک یہ جملہ سن کر خوف سے کمپنے لگا۔ اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور امانت واپس کر دی۔ محترم عزیز دوستو یہ زہانتوں کے پیکر قاضی کون تھے؟ یہ خدا ترس امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کے انتخاب کردہ قاضی عیاس بن معاویہ تھے۔ عیاس بن معاویہ کی زہانت ضرب المثل تھی۔ آپ کی زہانت سن کر ہی امیر المومنین آپ کو بسرا کا قاضی مقرر کیا۔ اگر بھی لوگ علمی اور دینی عمر میں پیش آمدہ مشکلات کے حل کے لیے ان کے پاس آنے لگے۔ بعض معلومات کے لیے اور بعد مباہثے میں مدد مقابل پر غالب آنے کے لیے آپ سے علمی نقطے معلوم کرتے۔ ایک قساطی مجید کے لیے آپ کو بسرا کا قاضی مقرر کیا۔ ایسان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا اے ایس کیا شراب حرام ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا اگر توڑی کے ایک مٹھی تجھے ماروں کیا اس سے تجھے تکلیف ہوگی؟ کہا کہ نہیں۔ فرمایا اگر میں توڑی مٹھی اور پانی ملا کر ایک ڈھیلا بناوں اور پھر دھوب میں اسے خوشک کر کے تجھے ماروں کیا تجھے تکلیف ہوگی؟
اس نے کہا ضرور ہو سکتا ہے اس کے ذریعے تم مجھے قتل بھی کر دو۔ فرمایا بس یہی مثال شراب کی ہے جب اجزا کو ملا کر اسے آگ کی آنچ دی جاتی ہے۔ تو اس میں نشاہ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ محترم ناظرین یہ تھی مدینہ کی ریاست یہ تھا اسلام یہ تھی اسلامی عدالت اور یہ تھے اسلامی ریاست۔ لیکن میرے محترم مزید دوستو آج کے دور کو دیکھئے آج کی ہماری عدالتوں کو دیکھئے غریب بستا جاتا ہے جبکہ امیر مجرم ہونے کے باوجود باعظت بری ہو جاتا ہے لاکھوں لوگوں کے قاتلوں کو بری کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہوتا ہے ان کے پاس طاقت ہوتی ہے جبکہ غریب دن بدن اس قانون میں پستے جا رہے ہیں اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری قانون میں بری ہو جاتا ہے۔ ہم اسلامی ملک ہیں، ہمارا نظام اسلامی ہے۔ جبکہ حقیقت کو دیکھا جائے تو اسلامی نظام سے ہم کوسوں دور ہیں۔ ہم صرف دعویٰ ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے اور راہ راست پر چلنے کی توفیق اطافہ فرمائے۔ انہی لفظوں کے ساتھ میں اجازت چاہوں گا اس امید کے ساتھ کہ سانسنے وفا کی تو اگلی بار ایک اور ویڈیو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ اب تک کے لئے خدا حفظ اللہ پاک آپ سب کا حافظ و نکہبان ہستے رہیے اور ہمیشہ مسکراتے رہیے